ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ
ہے، ”شعبان“ عربی زبان کے لفظ ”شَعّْبْ“ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے
کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے
خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام
”شعبان“ رکھاگیا۔ (عمدة القاری، باب صوم شعبان۱۱/۱۱۶،
فیض القدیر۲/۳)
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ
رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ
قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَھْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا
فِيْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری ۱/۲۶۴، صحیح مسلم ۱/۳۶۵)
یعنی میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی
پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ
نفلی روزے رکھتے ہوں۔ ایک اور حدیث میں فرماتی
ہیں: کَانَ اَحَبُّ الشُّھُورِ اِلٰی
رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ
بِرَمَضَانَ (کنزالعمال حدیث ۲۴۵۸۴) یعنی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ
بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں۔
اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دومہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی
نہیں دیکھا۔ (ترمذی شریف۱/۱۵۵)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے
پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے
کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔
ماہِ شعبان میں روزے کی حکمتیں
ماہِ شعبان میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی اسباب
اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، علامہ محب
طبری نے چھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں، (عمدة
القاری ۱۱/۱۱۹) جن میں سے چار حکمتیں
وہ ہیں جن کی طرف احادیث میں بھی اشارہ کیاگیا
ہے، انھیں کو یہاں ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) رمضان کی تعظیم
اور روحانی تیاری
چناں چہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا
کہ: ”اَیُّ الصَّوْمِ افضَلُ بَعْدَ
رَمَضَانَ قالَ شعبانُ لِتَعْظِیْمِ رمضَانَ“ ترجمہ: رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ
کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا
روزہ، الخ (ترمذی شریف ۱/۱۴۴، باب فضل
الصدقہ) یعنی رمضان المبارک کی عظمت، اس کی روحانی
تیاری، اس کا قرب اور اس کے خاص انواروبرکات کے حصول اور ان سے مزید
مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ ماہِ شعبان میں کثرت کے ساتھ
نفلی روزے رکھنے کا سبب بنتا تھا اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں
سے وہی نسبت ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی
ہے۔ (الطائف المعارف لابن رجب ۱/۱۳۸،
معارف الحدیث ۴/۱۵۵)
(۲) اللہ تعالیٰ کی
طرف اعمال کا اٹھایا جانا
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی
فضیلت سے غافل ہیں؛ حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال
پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس
بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس
حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان
حدیث ۳۸۲۰، فتح الباری ۴/۲۵۳)
(۳) مرنے والوں کی فہرست
کا ملک الموت کے حوالے ہونا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس
کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں
ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں
اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس
بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ
میں روزے دار ہوں۔ (مسند ابو یعلی حدیث ۴۹۱۱،
فتح الباری ۴/۲۵۳
(۴) ہر مہینے کے تین
دن کے روزوں کا جمع ہونا
ایک حکمت یہ بھی بیان
کی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
تقریباً ہر مہینے تین دن یعنی ایامِ بیض
(تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے رکھتے تھے، (نسائی شریف
۱/۲۵۷) لیکن بسا اوقات سفر وضیافت وغیرہ
کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ جاتے اور وہ کئی مہینوں کے جمع
ہوجاتے، تو ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے؛ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے حدیث شریف مروی ہے کہ: ”کان رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ ثَلاثَةَ ایامٍ من
کُلِّ شَھْرٍ فَرُبَّمَا اَخَّرَ ذٰلِکَ حَتّٰی یَجْتَمِعَ
عَلَیْہِ صَومُ السَّنَةِ فَیَصُوْمُ شعبانَ“ (روضة المحدثین ۲/۳۴۹،
نیل الاوطار ۴/۳۳۱)۔
فائدہ(۱): مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے
معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی
حکمتوں کی وجہ سے شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھے۔ اس کے
ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِذَا
بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلاَ تَصُوْمُوْا (ترمذی شریف ۱/۱۵۵،
جامع الاحادیث ۲/۴۴۵) یعنی جب آدھا
شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔ تو علماء نے اس کا یہ مطلب
بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں
کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے، ایسے لوگوں کو اس حدیث شریف
میں یہ حکم دیاگیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو؛
بلکہ کھاؤ پیئو اور طاقت حاصل کرو؛ تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ
رکھ سکو اور دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دے سکو اور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ طاقت ور تھے، روزوں کی وجہ سے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو کمزوری لاحق نہیں ہوتی تھی؛ اس لیے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھتے تھے
اورامت میں سے جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں اور روزے ان کو
کمزور نہیں کرتے وہ بھی نصف شعبان کے بعد روزے رکھ سکتے ہیں،
ممانعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کو کمزوری لاحق ہوتی ہے۔
(فتح الباری ۴/۲۵۳، تحفة الالمعی ۳/۱۱۱)
فائدہ (۲): ماہِ شعبان کے روزے صحیح روایات
سے ثابت ہیں، جیساکہ تفصیل گزرچکی؛ لہٰذا شعبان کے
کم از کم پہلے نصف حصے میں روزے رکھنے چاہئیں اور اس سنت کو زندہ کرنا
چاہیے؛ اگرچہ یہ روزے نفلی ہیں نہ رکھنے پر کوئی
مواخذہ نہیں۔
شبِ براء ت کی فضیلت و اہمیت
ماہِ شعبان کی پندرہویں شب
”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، براء ت کے معنی ”رستگاری وچھٹکارا“ کے ہیں،
شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں:
شب برأت کو شب برأت اس لیے کہتے ہیں کہ اس رات میں دو قسم کی
براء ت ہوتی ہے: (۱) ایک براء ت تو بدبختوں کو خدائے تعالیٰ
کی طرف سے ہوتی ہے۔ (۲) دوسری براء ت خدا کے دوستوں
کو ذلت و خواری سے ہوتی ہے۔ (غنیة الطالبین، ص۴۵۶)
نیز فرمایا کہ جس طرح
مسلمانوں کے لیے اس روئے زمین پر عید کے دو دن (عیدالفطر
وعیدالاضحی) ہیں، اسی طرح فرشتوں کے لیے آسمان پر
دو راتیں (شبِ براء ت وشبِ قدر) عید کی راتیں ہیں۔
مسلمانوں کی عید دن میں رکھی گئی؛ کیوں کہ وہ
رات میں سوتے ہیں اور فرشتوں کی عید رات میں رکھی
گئی؛ کیوں کہ وہ سوتے نہیں۔ (غنیة الطالبین،
ص۴۵۷)
احادیث شریفہ میں شبِ
براء ت کی بہت زیادہ فضیلت اور اہمیت بیان کی
گئی ہے، جن میں سے چار حدیثیں پیش کی جاتی
ہیں:
(۱) بے شمار لوگوں کی
مغفرت:
عَنْ عَائِشَةَ
قالت فَقَدتُّ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَةً فَخَرَجْتُ
فَاِذَا ھُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ
اللہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ
بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ
لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا
فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ․ (ترمذی شریف ۱/۱۵۶،
ابن ماجہ ،ص۹۹)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں: میں نے ایک
رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا،
تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی،
تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع (مدینہ
طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا: کیا تو یہ اندیشہ
رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کرے گا؟ (یعنی
تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے
پاس چلا جائے گا؟) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ
خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس
تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا
پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے
بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب
کا ایک قبیلہ تھا، عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں
ہوتی تھیں۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ۳/۳۳۹)
(۲) صبح تک اللہ تعالیٰ
کی ندا:
عَنْ عَلِیِّ
بنِ اَبِیْ طالبٍ قال قال رسولُ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم
اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَھَا
وصُوْمُوْا نَھَارَھَا فَاِنَّ اللہَ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ
الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ
مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ
اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ
الْفَجْرُ․ (ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان
۳/۳۷۸، حدیث ۳۸۲۲)
ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا ارشاد ہے: جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام
کیا کرو اور اس کے دن (پندرہویں تاریخ) کا روزہ رکھا کرو؛ اس لیے
کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب
کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے
کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا جس کی میں مغفرت کروں؟، کیا
ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا کروں؟ کیا ہے
کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ
میں اس کو عافیت عطا کروں؟ کیا ہے کوئی ایسا؟ کیا
ہے کوئی ایسا؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے
رہتے ہیں؛ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔
(۳) کن لوگوں کی مغفرت
نہیں ہوتی:
عَنْ اَبِیْ
مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ
وسلم قال: اِنَّ اللہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ
شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او
مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان
للبیہقی
۳/۳۸۲)
ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعری
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جھانکتے ہیں یعنی
متوجہ ہوتے ہیں نصف شعبان کی رات میں، پس اپنی تمام مخلوق
کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔
اہم فائدہ: ”مشاحن“ کی ایک تفسیر
اس بدعتی سے بھی کی گئی ہے جو مسلمانوں کی جماعت سے
الگ راہ اپنائے (مسند اسحاق بن راہویہ ۳/۹۸۱، حاشیہ
ابن ماجہ ص۹۹) حضرت عثمان بن ابی العاص کی روایت
میں ”زانیہ“ بھی آیا ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت میں ”رشتہ داری توڑنے
والا، ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شراب کا عادی“
بھی آیا ہے اور بعض روایات میں عشّار، ساحر، کاہن، عرّاف
اور طبلہ بجانے والا بھی آیا ہے۔ گویا احادیث شریفہ
سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عام مغفرت کی اس مبارک رات میں
چودہ (۱۴) قسم کے آدمیوں کی مغفرت نہیں ہوتی؛
لہٰذا ان لوگوں کو اپنے احوال کی اصلاح کرنی چاہیے: (۱)
مشرک، کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو (۲) بغیر کسی
شرعی وجہ کے کسی سے کینہ اور دشمنی رکھنے والا (۳)
اہل حق کی جماعت سے الگ رہنے والا (۴) زانی وزانیہ (۵)
رشتے داری توڑنے والا (۶) ٹخنوں سے نیچے اپنا کپڑا لٹکانے والا
(۷) ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (۸) شراب یا کسی
دوسری چیز کے ذریعے نشہ کرنے والا (۹) اپنا یا کسی
دوسرے کا قاتل (۱۰) جبراً ٹیکس وصول کرنے والا (۱۱)
جادوگر (۱۲) ہاتھوں کے نشانات وغیرہ دیکھ کر غیب کی
خبریں بتانے والا (۱۳) ستاروں کو دیکھ کر یا فال کے
ذریعے خبر دینے والا (۱۴) طبلہ اور باجا بجانے والا۔
(شعب الایمان ۳/۳۸۲، ۳۸۳، الترغیب
والترہیب ۲/۷۳، مظاہر حق جدیث ۲/۲۲۱،
۲۲۲)
(۴) پانچ راتوں میں دعا
رد نہیں ہوتی:
عَنْ ابنِ
عُمَر قال: خَمْسُ لَیَالٍ لاَ یُرَدُّ فِیْھِنَّ الدُّعَاءُ لَیلَةُ
الجُمُعَة واَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ
شَعبانَ ولَیْلَتَا الْعِیْدِ․ (شعیب الایمان ۳/۳۴۲،
حدیث ۳۷۱۳)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی
(ضرور قبول ہوتی ہے) جمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات،
نصف شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔
شبِ براء ت میں کیا کیا جائے؟
ان احادیث شریفہ سے یہ
بات معلوم ہوئی کہ شبِ برأت ایک بابرکت اور عظمت والی رات ہے،
اگرچہ شبِ برأت کے متعلق ذخیرہٴ احادیث میں جتنی حدیثیں
آئی ہیں، وہ سب کمزور ہیں، ان کی سند محدثین کے
اصول کے مطابق صحیح نہیں؛ مگر چوں کہ یہ متعدد حدیثیں
ہیں اور مختلف صحابہٴ کرام (مثلاً: ابوبکر صدیق،
علی بن ابی طالب، معاذ بن جبل، ابوموسیٰ اشعری،
عبداللہ بن عمرو بن العاص، ابو ثعلبہ خشنی، عثمان بن ابی العاص اور
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہم) سے مختلف سندوں
سے روایت کی گئی ہیں؛ اس لیے یہ روایات
کم از کم ”حسن لغیرہ“ کے درجے میں ہیں؛ اسی لیے بعض
اکابر محدثین نے کہا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی بنیاد
ہے؛ چناں چہ مشہور غیرمقلد عالم ”علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ
اللہ“ فرماتے ہیں: ”اِعْلَمْ اَنہ قد وَرَدَ فی فضیلةِ
لیلةِ النِّصفِ من شعبان عدةُ احادیثَ مجموعُھا یَدُلُّ علی
اَنَّ لَھَا اَصْلاً“ پھر چند احادیث شریفہ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ”فھٰذہ
الأحادیث بِمَجْمُوعِھَا حُجَّةٌ علی من زَعَمَ اَنَّہ لم یَثْبُتْ
فی فضیلة لیلةِ النِّصفِ من شعبانَ شیْءٌ“ یعنی یہ تمام حدیثیں
مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں جس نے گمان کیا کہ
پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی
چیز ثابت نہیں ہے۔ (تحفة الاحوذی ۳/۳۶۵،
باب ما جاء فی لیلة النصف من شعبان) اسی وجہ سے اکثر بلاد اسلامیہ
کے دین دار حلقوں میں ہر زمانے میں اس رات کے اندر عبادت، دعا
اور استغفار نیز اس کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا خصوصی
اہتمام کیا جاتا رہا ہے، اس خاص موقع پر کن کاموں کو کس طریقے پر کرنا
چاہیے اور کن امور سے پرہیز کرنا چاہیے؟ ذیل میں ان
کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے:
(۱) شب براء ت میں
عبادت کریں
اس سلسلے میں چند باتیں پیش
نظر رہنی ضروری ہیں: (الف): نفلی عبادت تنہائی میں
اور اپنے گھر میں ادا کرنا افضل ہے؛ لہٰذا شب براء ت کی عبادت
بھی گھر میں کریں، مسجد میں نہیں، حضرت عبداللہ بن
عمر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: ”اِجْعَلُوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ
مِنْ صَلَاتِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْھَا قُبُوْرًا“ (بخاری شریف ۱/۱۵۸)
اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں بناؤ یعنی نوافل گھر
میں ادا کرو اور ان کو قبرستان نہ بناؤ کہ قبرستان میں نماز نہیں
پڑھی جاتی (تحفة القاری ۳/۵۰۷)
(ب) اس رات میں (اسی طرح شب
قدر میں بھی) عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں؛
ذکر وتلاوت، نفل نماز، صلاة التسبیح وغیرہ کوئی بھی عبادت
کی جاسکتی ہے۔
(ج) اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق
عبادت کرنی چاہیے، اتنا بیدار رہنا صحیح نہیں ہے کہ
آدمی بیمار ہوجائے۔
(د) پورے سال فرض نماز کا اہتمام کیا
جائے، صرف شب براء ت میں نفلی عبادت کرکے اپنے کو جنت کا مستحق سمجھنا
باطل خیال ہے، یوں اللہ تعالیٰ مختار کل اور قادر مطلق ہے
جس کو چاہے معاف کرسکتا ہے۔
(ھ) بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ
اس رات میں ایک مخصوص طریقے سے دو رکعت نماز پڑھ لی جائے
تو جو نمازیں قضا ہوگئیں وہ سب معاف ہوجائیں گی۔ یہ
بات بالکل بے اصل ہے۔
(و) شب براء ت میں فضول گپ شپ میں
شب بیداری کرنا، گلیوں، چوراہوں اور ہوٹلوں میں وقت
گذارنا بالکل بے سود؛ بلکہ ”نیکی برباد گناہ لازم“ کا مصداق ہے۔
(۲) قبرستان جانے کا مسئلہ
حدیث شریف گذرچکی ہے کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس رات قبرستان تشریف لے گئے؛ مگر واضح
رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اس
قدر خفیہ تھا کہ آپ نے اپنی زوجہٴ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے بھی اپنے جانے کو مخفی رکھا اور کسی بھی
صحابی کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے اور بعد میں بھی کسی
صحابی کو اس عمل کی ترغیب دینا ثابت نہیں؛ اس لیے
شب براء ت میں ٹولیوں کی شکل میں قبرستان جانا، اس کو شب
براء ت کا جز ولازم سمجھنا،راستوں میں روشنی کا اہتمام کرنا، یہ
دین میں زیادتی اور غلو ہے، بغیر کسی اہتمام
اور پابندی کے قبرستان جانا چاہیے!
(۳) پندرہویں تاریخ
کو روزہ رکھنا
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی
مندرجہ بالا حدیث شریف پر عمل کرتے ہوئے امت میں پندرہویں
تاریخ کے روزہ رکھنے کا معمول رہا ہے۔ اگرچہ وہ حدیث باتفاقِ
محدثین انتہائی ضعیف ہے؛ کیونکہ اس کے ایک راوی
”ابوبکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابی سبرہ“ پر حدیثیں گھڑنے کا
الزام ہے۔ تاہم اس حدیث شریف کو موضوع نہیں کہا جاسکتا؛ کیوں
کہ ابوبکر بن عبد اللہ پر حدیثیں گھڑنے کے الزام سے یہ ثابت نہیں
ہوتا کہ یہ حدیث بھی اس کی بنائی ہوئی ہے، جس
کی تین وجوہات ہیں: (۱) پہلی وجہ یہ ہے کہ
اصولِ حدیث وغیرہ کی مختلف کتابوں میں صراحت ہے کہ کسی
حدیث کی سند میں کوئی راوی متّہم بالکذب یا
متّہم بالوضع پایا جائے تو محض اتنے سے وہ حدیث موضوع نہیں
ہوجاتی، جب تک کہ کوئی دوسری دلیل اس کے موضوع ہونے پر
دلالت نہ کرے؛ چناں چہ امام سخاوی فرماتے ہیں: ”ھٰذا
مَعَ اَنّ مُجَرّدَ تَفَرُّدِ الْکَذّابِ بَلِ الْوَضّاعِ ولو کان بعدَ
الاسْتِقْصَاءِ والتَّفْتِیْشِ منْ حافِظٍ مُتَبَحِّرٍ تَامِّ
الاسْتِقْرَاءِ غَیْرُ مُسْتَلْزِمٍ لِذٰلِکَ بل لابُدّ مَعَہ من
انضِمَامِ شَیْءٍ مِمّا سَیَأتِیْ“ ترجمہ: محض کسی جھوٹے بلکہ وضَّاعِ
حدیث کا کسی حدیث میں متفرد ہونا اس کو (یعنی
حدیث کے موضوع ہونے کو) مستلزم نہیں، اگرچہ اس کا ثبوت کسی
متبحر اور دیدہ ور حافظِ حدیث کی تحقیق سے ہوا ہو؛ بلکہ
اس کے ساتھ کسی اور دلیل کا ملنا بھی ضروری ہے، جس کا ذکر
آئندہ آرہا ہے۔ (فتح المغیث ۲/۶۸، باب تحمل
الاجازة)
مثلاً: حدیث: ”لا
تقولوا سورة البقرة الخ“ کو امام احمد نے منکر اور اس کے راوی ”عُبیس“ کو منکر الحدیث
کہا ہے، جس کی وجہ سے علامہ ابن الجوزی نے اس حدیث
شریف کو موضوعات میں داخل کردیا، تو علامہ جلال الدین سیوطی نے حافظ ابن حجر کا اس پر سخت
اعتراض نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:”قال ابنُ
حجر فی اَمالِیْہ اَفْرَطَ ابنُ الجوزی فی اِیْرادِ
ھٰذا الحدیثِ فی الْمَوْضُوْعاتِ ولَمْ یَذْکُرْ
مُسْتَنَدَہ اِلَّا قولَ احمد وتضْعِیْفَ عُبَیْسَ وھٰذا لاَ یَقْتَضِیْ
وَضْعَ الْحَدِیْثِ“ یعنی ابن جوزی نے اس حدیث
شریف کو موضوعات میں شمار کرکے تشدد سے کام لیاہے اور دلیل
میں حضرت امام احمد کے قول اور عبیس
کی تضعیف کے علاوہ کچھ اور ذکر نہیں کیا؛ لیکن یہ
بات اس حدیث کے موضوع ہونے کا تقاضہ نہیں کرتی۔ (اللآلی
المصنوعہ ۱/۲۱۸)
لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی
کہ پندرہویں شعبان کے روزے کی فضیلت والی حدیث کو
محض اس وجہ سے موضوع کہنا کہ اس کے ایک راوی ”ابوبکر بن عبد اللہ“ پر
وضعِ حدیث کا الزام ہے، بالکل غلط ہے، خود مشہور اہل حدیث عالم مولانا
عبدالرحمن مبارک پوری اس حدیث کو
شب براء ت کی فضیلت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اس
شخص پر حجت قائم کرتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ شعبان کی پندرہویں
شب کی فضیلت ثابت نہیں، جیساکہ ان کی عبارت اوپر
گزرگئی، اگر یہ حدیث موضوع ہوتی تو ہرگز وہ یہ بات
نہ فرماتے۔
(۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ
یہ حدیث شریف سنن ابن ماجہ کی ہے اور بعض حضرات نے سنن
ابن ماجہ کی موضوع احادیث کی نشان دہی کی ہے اور اس
سلسلے میں ایک رسالہ ”مَا تَمَسُّ اِلَیْہِ الْحَاجة“ لکھا ہے، جس میں ان تمام موضوع
احادیث کو ذکر کردیاگیا ہے؛ لیکن ان میں اس حدیث
شریف کا ذکر نہیں ملتا۔
(۳) درج بالا سطور میں تفصیل
کے ساتھ یہ بات بیان کی گئی کہ حضرت علی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث موضوع نہیں، اس
کو موضوع قرار دینا محدثین کے اصول کے خلاف نیز کم علمی کی
دلیل ہے، ہاں یہ حدیث شریف ضعیف ضرور ہے؛ مگر اس کا
ضعف اس پر عمل کرنے سے مانع نہیں؛ کیوں کہ محدثین نے اس کی
بھی صراحت کی ہے کہ ”باب الفضائل“ میں ضعیف حدیث
قابل قبول ہوتی ہے؛ چناں چہ امام احمد، عبدالرحمن بن مہدی اور عبداللہ
بن المبارک رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول منقول ہے: ”اذا رَوَیْنَا
فی الحلالِ والحرامِ شَدَّدْنَا واِذَا رَوَیْنَا فی الفضائِلِ
ونَحْوِھَا تَسَاھَلْنَا“ جب ہم حلال وحرام کے باب میں حدیث نقل کرتے ہیں
تو مکمل احتیاط اور سختی سے کام لیتے ہیں اور جب فضائل وغیرہ
کے باب میں روایت کرتے ہیں تو نرمی برتتے ہیں۔
(اللآلی المصنوعہ ۱/۹۹)
اسی طرح علامہ سیوطی فرماتے ہیں: ”یَجُوْزُ عِنْدَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ
وغَیْرِھِمْ التّسَاھُلُ فی الاَسَانِیْدِ الضَّعِیْفَةِ
وَرِوَایَةِ مَا سِوَی الْمَوْضُوعِ من الضّعِیْفِ والعَمَلِ
بِہ من غیرِ بَیَانِ ضُعْفِہ فی غیرِ صِفَاتِ اللہ تعالٰی
والاحْکَام کالحلالِ والحرامِ“ ترجمہ: محدثین وغیرہم کے نزدیک ضعیف
سندوں میں تساہل برتنا اور موضوع کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں کو ان
کا ضعف بیان کیے بغیر روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا جائز
ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ کی صفات اور احکام مثلاً حلال وحرام کی
حدیثوں میں ایسا کرنا جائز نہیں۔ (تدریب
الراوی ۱/۲۹۸، النوع الثانی والعشرون
المقلوب)
اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی
کہ پندرہویں شعبان کے روزے کو نہ تو سنت قرار دینا مناسب ہے اور نہ
بدعت؛ البتہ مستحب کہا جائے گا؛ کیوں کہ ایک ضعیف حدیث میں
اس کی فضیلت مذکور ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث قابل
قبول ہوتی ہے۔
لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ ماہِ
شعبان کے اکثر حصے کے روزے رکھے جائیں، یہ نہ ہوسکے تو ماہ شعبان کے
نصف اوّل کے روزے رکھے جائیں، یہ بھی نہ ہوسکے تو ایام بیض
(۱۳، ۱۴،۱۵ شعبان) کے روزے رکھے جائیں
اور اتنا بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم پندرہ شعبان کا روزہ تو رکھ ہی لے، یہ
روزہ بھی ان شاء اللہ موجب اجر ہوگا۔
شب براء ت کی خرافات
مندرجہ بالا تین اعمال شب براء ت سے
متعلق ہیں، ان کے علاوہ دیگر تمام اعمال خلافِ سنت، بدعات و خرافات
اور بے اصل ہیں، جن کی شریعت اسلامیہ میں قطعاً
گنجائش نہیں، مثلاً:
(۱) آتش بازی
ان بدعات وخرافات میں سب سے بدترین
اور ملعون رسم ”آتش بازی“ ہے، جو آتش پرستوں اور کفار ومشرکین کی
نقل ہے، اس شیطانی رسم میں ہرسال مسلمانوں کی کروڑوں کی
رقم اورگاڑھی کمائی آگ میں جل جاتی ہے، بڑی دھوم
دھام سے آگ کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے، گویا ہم خدائے تعالیٰ
کی بارگاہ میں اپنی نیازمندی اور عبادت واستغفار کا
تحفہ پیش کرنے کے بجائے اپنے پٹاخے اور آگ پیش کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ آتش بازی کی یہ
بدترین رسم تین بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے:
(الف) اسراف وفضول خرچی
قرآنِ کریم میں اپنی
کمائی فضولیات میں خرچ کرنے والوں کو شیطان کا بھائی
قرار دیاگیاہے، ارشادِ خداوندی ہے: ”اِنَّ
الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن“ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیاطین
کے بھائی ہیں۔ (سورئہ بنی اسرائیل:۲۷)
(ب) کفار ومشرکین کی مشابہت
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے کفار ومشرکین اور یہود ونصاریٰ کی مشابہت
اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایاہے، حضرت عبداللہ بن عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ
تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ (مشکوٰة شریف ص۳۷۵) یعنی
جو شخص کسی قوم سے مشابہت اور ان کے طور طریق اختیار کرے گا اس
کا شمار انھیں میں ہوگا؛ مگر افسوس ہے ہماری زندگی پر کہ
ہر چیز میں آج ہم کو غیروں کا طریقہ ہی پسند ہے اور
اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے نفرت
ہے۔
(ج) دوسروں کو تکلیف دینا
جب پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں تو اس کی
آواز سے کتنے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس کو ہر شخص جانتا ہے، جب کہ
ہمارا مذہب اسلام ہم کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مومن آدمی
سے کسی بھی شخص کو (مسلم ہو یا غیرمسلم) تکلیف نہیں
ہونی چاہیے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الْمُوٴْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ
النَّاسُ علٰی دِمَائِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ، (ترمذی شریف۲/۹۰)
یعنی صحیح معنی میں موٴمن وہ شخص ہے جس سے
تمام لوگ اپنی جانوں اور مالوں پر مامون اور بے خوف وخطر رہیں، یہاں
تک کہ جانوروں کو تکلیف دینا بھی انتہائی مذموم، شدید
گناہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کا سبب قرار دیاگیا
ہے۔ (صحیح بخاری ۲/۸۲۸، صحیح
مسلم حدیث ۱۹۵۸، کتاب الصید والذبائح) حاصل یہ
ہے کہ صرف ”آتش بازی“ کی ایک رسم کئی بدترین اور
بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے، جو کسی بھی طرح مسلم معاشرے میں رواج
پانے کے لائق نہیں؛ بلکہ پہلی فرصت میں قابلِ ترک ہے۔
(۲) چراغاں کرنا
شبِ براء ت کے موقع پر بعض لوگ گھروں،
مسجدوں اور قبرستانوں میں چراغاں کرتے ہیں، یہ بھی اسلامی
طریقے کے خلاف ہے اور غیرمسلموں کے تہوار دیوالی کی
نقل اور مشابہت ہے۔ علامہ بدرالدین عینی نے لکھاہے کہ: چراغاں کی رسم کا آغاز یحییٰ
بن خالد برمکی سے ہوا ہے، جو اصلاً آتش پرست تھا، جب وہ اسلام لایا تو
اپنے ساتھ یہ آگ اور چراغ کی روشنی بھی لایا، جو
بعد میں مسلم سوسائٹی میں داخل ہوگیا اور نوبت یہاں
تک پہنچ گئی کہ اس کو مذہبی رنگ دے دیاگیا۔ (عمدة
القاری ۱۱/۱۱۷) اسی طرح غیرمسلموں
کے ساتھ میل جول کی وجہ سے یہ رسم ہم نے اسلام میں داخل
کرلی اور غیروں کی نقالی کرنے لگے، جب کہ غیروں کی
نقل ومشابہت پر سخت وعید آئی ہے جس کو اوپر بیان کردیاگیا۔
(۳) حلوہ پکانا
شبِ براء ت میں بعض لوگ حلوہ بھی
پکاتے ہیں؛ حالاں کہ اس رات کا حلوے سے کوئی تعلق نہیں۔ آیات
کریمہ، احادیث شریفہ، صحابہٴ کرام کے آثار، تابعین
و تبع تابعین کے اقوال اور بزرگانِ دین کے عمل میں کہیں
اس کا تذکرہ اور ثبوت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شیطان نے یہ
سوچا کہ اس رات میں عبادت واستغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ
لا تعداد لوگوں کی مغفرت فرمائے گا اور ان کی نیکیوں میں
اضافہ ہوگا تو مجھ سے یہ بات کیسے برداشت ہوگی؛ اس لیے اس
نے مسلمانوں کو ان خرافات میں پھنسا کر سنّت طریقے سے دور کردیا۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک جب شہید ہوئے تھے تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ نوش فرمایاتھا، یہ بات
بالکل من گھڑت اور بے اصل ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندانِ
مبارک غزوہٴ احد میں شہید ہوئے تھے، اور غزوئہ احد ماہِ شوال میں
پیش آیا تھا، جب کہ حلوہ شعبان میں پکایا جاتا ہے، دانت
ٹوٹنے کی تکلیف ماہِ شوال میں اور حلوہ کھایا گیا
دس مہینے بعد شعبان میں، کس قدر بے ہودہ اور باطل خیال ہے!
(۴) گھروں کا لیپنا پوتنا، نئے کپڑے بدلنا اوراگربتی وغیرہ
جلانا
شبِ براء ت کے موقع پر گھروں کی
لپائی پوتائی اور نئے کپڑوں کی تبدیلی کا اہتمام بھی
کیا جاتا ہے، نیز گھروں میں اگربتی جلاتے ہیں اور یہ
عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس رات میں مردوں کی روحیں
گھروں میں آتی ہیں، ان کے استقبال میں ہم ایسا کرتے
ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل فاسد اور مردود ہے، یہ عقیدہ
رکھنا جائز نہیں؛ لہٰذا ان بدعتوں سے بھی احتراز لازم ہے۔
(۵) مسور کی دال پکانا
یہ بھی بے ہودہ رسم ہے۔
غرض یہ تمام رسمیں خرافات اور
بے اصل ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؛ لہٰذا ان
سب چیزوں سے احتراز لازم ہے، ہماری کامیابی نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہی مضمر ہے۔ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: کُلُّ
اُمَّتِی یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ اِلاَّ مَنْ اَبٰی،
قَالُوْا: وَمَنْ یَّأبٰی؟ قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ
الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ اَبٰی․ (بخاری شریف ۲/۱۰۸۱،
حدیث ۷۲۸۰) یعنی میری امت
کا ہر ہر فرد جنت میں داخل ہوگا؛ مگر جو انکار کرے گا اور بات نہیں
مانے گا وہ جنت سے دور رہے گا، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین
نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! انکار کون کرسکتا ہے؟ ارشاد ہوا: جو شخص
میری اطاعت و فرماں برداری کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا
اور جو نافرمانی کرے گا اس نے گویا انکار کردیا، جس کی
وجہ سے وہ جنت سے محروم رہے گا۔
اللہ تعالیٰ پوری امت
کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعات وخرافات
سے حفاظت فرماکر اتباعِ سنت کے جذبے سے مالامال فرمائے!آمین ثم آمین!
$ $ $
------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد:
99 ، شعبان 1436 ہجری مطابق جون 2015ء